English Urdu

کارروائی، تجاویز اور فیصلے: بیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، کولکاتا

 
اعلامیہ کولکاتا

اعلامیہ کولکاتا

منعقدہ 29 فروری ،1،2 مارچ 2008 کولاکتا

شریعت اسلامی خدا کی بھیجی ہوئی آخری شریعت ہے، جس سے قیامت تک انسانیت کی ہدایت و فلاح متعلق ہے، مسلمان اس دین خداوند کے امین ہیں اور پوری انسانیت تک خدا کے اس پیغام کو پہنچانا امت کا فریضہ ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوں، اور اس کے مطابق عمل کریں، اگر ہم خود شریعت پر عمل پیرا نہ ہوں اور اس بات کی توقع رکھیں کہ حکومت ہمارے قانون کی حفاظت کرے گی، تو یہ سادہ لوحی ہوگی، آج مسلم معاشرہ میں بہت سی برائیاں درآئی ہیں، خاص کر شادی بیاہ میں بے جا مطالبہ، فضول خرچی، رشتہ داروں کے حقوق سے بے اعتنائی، بیوہ اور مطلقہ عورتوں کا نکاح نہ ہونا اور ان سے متعلق حقوق کی عدم ادائیگی، عورتوں کو حق میراث سے محروم رکھنا اور ایک دوسرے کے ساتھہ ربط و تعلق میں شریعت اسلامی کو رہنما بنانے کے بجائے رسم و رواج کو معیار بنانا، یہ ایسی برائیاں ہیں، جو آج دوسرے ہمسایوں سے متاثر ہو کر مسلم سماج کا حصہ بن چکی ہیں، علما اور خطبا کا فریضہ ہے کہ وہ ان کے بارے میں پوری قوت کے ساتھہ عام مسلمانوں کو آگاہ کریں، مذہبی تنظیموں، سماجی کارکنوں اور تعلیمی اداروں کافرض ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میںسماج کو ان برائیوں سے دور رکھنے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں اور مثالی اسلامی معاشرہ کی تشکیل کریں، ایسامعاشرہ جس میں کسی پر ظلم نہ ہوتا ہو، ایسا معاشرہ جس میں کوئی شخص کس مپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں ہو، ایسا معاشرہ جس میں تمام طبقات کو اس کے حقوق دیئے جاتے ہوں، کیوں کہ ہم اپنے عمل سے ہی اسلام کا صحیح اور موئثر تعارف کرا سکتے ہیں۔

شریعت پر عمل کرنے کے ساتھہ ساتھہ مسلمانوں اور خاص کر قانون دانوں اور دانشوروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی شریعت پوری طرح انسانی فطرت، انسانی ضرورتوں اور عقل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، جس میں ہر طبقہ کے ساتھہ عدل و انصاف اور حقوق کے درمیان توازن اور اعتدال سے کام لیا گیا ہے، کیوں کہ یہ شریعت خدا کی بھیجی ہوئی ہے اور خدا سے بڑھ کر انسان کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے کوئی اور ذات آگاہ نہیں ہو سکتی، افسوس کہ اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میںشریعت اسلامی کی تفہیم کی کوشش کی جائے، بحمدللہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ خاص طور پر محقق علما، ارباب افتا، وکلا اور دانشوروں سے اپیل کرتا ہے کہ اس موضوع پر باہمی مذاکرات رکھے جایئں، قانون شریعت کو سمجھا اور سمجھایا جائے اور برادران وطن تک بھی اسلام کے فلسفئہ قانون کو پہنچایاجائے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلمانوں کو اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ حق کے مقابلہ میں ہمیشہ باطل کی یلغار ہوتی رہی ہے، قرآن مجید میں انبیا کے جو قصص و واقعات ذکر کئے گئے ہیں، وہ اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ باطل کے پرستاروں نے داعیان حق کا استقبال کیا ہو اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے ہوں، بلکہ ہمیشہ ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، سب و شتم سے ان کا استقبال کیا گیا، انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، یہاں تک کہ بعض دفعہ انہیں ترک وطن پر بھی مجبور ہونا پڑا، آج بھی دنیا میں اسلام اور امت اسلامیہ کے خلاف جو فکری، تہذیبی اور عسکری یلغار ہو رہی ہے اور ذرائع ابلاغ کی قوت سے فائدہ اٹھا کر مظلوموں کو ظالم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے، یہ اسی کا تسلسل ہے اور انشااللہ بالآخر حق اور سچائی ہی کو کامیابی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی گروہ کا راہ حق پر قائم رہنا اور باطل کے سامنےسرنگوں نہیں ہونا بجائے خود اس کی کامیابی ہے، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دین پر پوری قوت کے ساتھا ثابت قدم رہیں، وہ معاندین کی ریشہ دوانیوں سے مرعوب نہ ہوں اور اپنے آپ کو بہر حال احساس کمتری سے بچائیں، کیوں کہ دنیا میں یہی ایک ایسی امت ہے جو اپنے پاس خدا کی محفوظ کتاب رکھتی ہے، جس کا رشتہ ایسے نبی سے ہے جس کی نبوت قیامت تک کے لئے ہے اور جو اس گئی گزری حالت میں بھی واحد ایسی قوم ہے، جو اپنی عملی زندگی میں خدا کے بھیجے ہوئے دین سے مربوط ہے، اس وقت مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر جو پتھر پھینکے جا رہے ہیں، اس کی مثال ان پتھروں کی سی ہے جو محروم لوگوں کی طرف سے کسی پھل دار درخت پر پھینکے جاتے ہیں۔

ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، دین پر استقامت اور اتحاد امت، اگر مسلمان اپنی صفوں میں وحدت کو باقی رکھیں اور بکھراو نہ پیدا ہونے دیں، تو ان کی طاقت بے پناہ ہوجائے گی، کیوں کہ وہ حقیقی معنوں میں ایسی امت ہیں، جو پوری دینا میں عددی اعتبار سے اکثریت کی حامل ہے، جس میں افرادی قوت میں اضافہ کی رفتار تمام مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہے اور جو اپنے فکر و عقیدہ کے اعتبار سے انسانی و حدت کی داعی ہے، خود ہمارے ملک میںوہ دوسری بڑی اکثریت ہے اور ملک کے چپہ چپہ پر نہ صرف اس کے وجود کے، بلکہ اس کی خدمات کے نقوش بھی ثبت ہیں۔

بورڈ کا یہ اجلاس حکومت ہند کو نہایت افسوس کے ساتھا اس رویہ پر متنبہ کرتا ہے کہ وہ مظلوموں کی ناصر و مددگار ہونے کے بجائے ظالموں کے ساتھا دوستی کا حق ادا کر رہی ہے، وہ امریکہ کی ہر آواز پر لیبیک کہتی ہے اور اس کے غیر حقیقت پسندانہ رویہ کی بھی آنکھا بند کرکے تائید کرتی جا رہی ہے، حالاں کہ افغانستان و عراق اور ایران کے معاملہ میں اس کا نامنصفانہ اور جابرانہ طرز عمل کھلی کتاب ہے، اسرائیل سے ہمارے ملک کے بڑھتے ہوئے تعلقات فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کے خلاف روا رکھی جانے والی دہشت گردی کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ ہیں، حکومت کو اپنے اس رویہ سے باز آجانا چاہئے۔ ہندوستان غیرجانبدار تحریک کے بانی ممالک میں ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر انصاف کو قائم رکھنا اور کمزور چھوٹے ممالک کی سالمیت کو یقینی بنانا تھا، اس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہوگی کہ خدا نے جس خطہ کو مقتدا اوررہنما کی حیثیت دی ہے، وہ بعض ظالم و جابر بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن کر رہنے پر راضی ہو جائے۔

بورڈ کا یہ اجلاس سرمایہ دار مسلمانوں اور تجارت پیشہ لوگوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ملک میں جدید ذرائع ابلاغ میں حصہ دار بننے کی کوشش کریں، خاص کر انگریزی اور مقامی زبانوں میں پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عام لوگوں تک درست اور سچا پیغام پہنچانے کی سعی کریں، تاکہ لوگ پروپیگنڈوں اور غلط فہمیوں کی دنیا سے باہر آسکیں، اور حقائق سے واقف ہونے میں ان کی مدد ہو سکے۔

بورڈ عالمی اور ملکی سطح پر اس طرز عمل کی سخت مذمت کرتا ہے کہ بلا تحقیق مسلمان نوجوانوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے، اور الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی ان کے ساتھا وہ طرز عمل اختیار کیا جاتاہے، جو شاید مجرموں کے ساتھ بھی اختیار کرنا انسانیت، اخلاق اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ دہشت گردی کی تعریف آج بین الاقوامی سطح پر نہ تنظیم اقوام متحدہ نے متعین کی اور نہ ملکی سطح پر اس کو متعین کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کسی بے قصور کی جانب ومال پر حملے کو جس نے کوئی جرم نہ کیا ہو قرآن کریم انسانیت کے خلاف جرم Crime against Humanity قرار دیتا ہے۔ چاہے یہ حملہ فرد کرے، کوئی گروہ یا ریاست یا حکومت کی جانب سے ہو دراصل یہی دہشت گردی ہے۔مسلمان ہرگز دہشت گردی کی تائید نہیں کرتا، لیکن یہ متعین کرناضروری ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ اور دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں؟ جب کسی قوم کو انصاف حاصل نہیں ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ کوئی ایسی جگہ موجود نہیں ہے، جو ان کو انصاف فراہم کرے تو اسی سے لاقانونیت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان اسباب پر بھی غور کرے، جو دہشت گرد پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں اور تمام لوگوں کو یکساں طریقہ پر انصاف فراہم کرے، تاکہ دہشت گردی کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں۔ دہشت گردی کو صرف قانون و نظم Law and Order کا مسئلہ نہ سمجھا جائے اور حکومت اس کے اسباب پر غور کرکے اور جن کو مظلومیت کا شدید احساس ہے ان کی شکایات کا ازالہ کرے اور ان کو انصاف کا یقین دلائے، نیز اس سلسلہ میں امریکہ کی ہدایات کو اپنے لئے مشعل راہ نہ بنائے، کیوں کہ امریکہ اس وقت جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے، ان سب کو خود اسی نے پروان چڑھایا ہے، وہ خود افراد اور حکومتوں کو ان لوگوں کے خلاف استعمال کرتا ہے، جن کو زیر کرنا مقصود ہو، اور جب ان کا رخ امریکہ کی ظلم و زیادتی کی طرف مڑتا ہے تو خود ہی انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے، ہندوستان ایک عظیم ملک اوردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس کو چاہیے کہ ایسی باہری طاقت جس کے اپنے خاص استعماری مواصد ہیں اس کی ہمنوائی نہ کرے، اپنی آزادی، وقار اور عظمت کا سودا نہیں کرے، اور ہندوستان کی روایت کے مطابق ایک انصاف پسند اور حق کے طرفدار ملک کی حیثیت سے اس کی شناخت باقی رہے۔

پہلا صفحہ
تعارف
عہدہ داران
خبر نامہ
نکاہ نامہ
مطبوعات
صدر بورڈ کا پیغام
اجلاس عام
اعلامیہ کولکاتا
اجلاس مجلس عاملہ
پریس ریلیز
اعلانات
تاثرات
رابطہ
   
پہلا صفحہ   |      اعلانات   |      پریس ریلیز   |      مطبوعات    |      خبر نامہ   |      تاثرات   |      رابطہ